خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ از اوریا مقبول جان

 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ از اوریا مقبول جان

فلپائن کے شہر منیلا کے علاقے پاسک میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی کئی منزلہ عمارت میں ہزاروں کمرے ہوں گے لیکن اس کے کمرے کے دروازے کے اوپر شاندار ٹائل پر خوبصورت رنگوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی تھی۔ کتنے مسلمان ملکوں کے نسل در نسل خاندانی مسلمان وہاں کام کرتے ہیں لیکن اس ماحول میں رنگے ہوئے۔ عالمی طور پر وضع کردہ اصطلاحات میں رچی بسی گفتگو کرتے اور ویسی ہی زندگی بسر کرتے ہوئے مگر وہ تو ایک امریکی تھا ایک کٹر عیسائی خاندان میں پلا بڑھا۔ امریکی ریاست ایریزونا کا رہنے والا۔ وہ ریاست جو بلوچستان کی طرح بے آب و گیاہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ جہاں پانی کی اہمیت نے اس شعبے کے ماہرین کو اپنا اثاثہ بنایا ہوا تھا۔ وہ بھی ایک ایسا ہی ماہر تھا جس کی مانگ ہر
ایسے خطے میں تھی جہاں پانی کو ذخیرہ کر کے آیندہ آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے منصوبہ سازی کی جاتی تھی۔ قسمت اسے صومالیہ لے گئی۔ وہاں اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ مسلمان عجیب قوم ہے‘ کہ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتی ہے‘ فاقوں پر فاقے چل رہے ہوتے ہیں لیکن جہاں وہ پانچ وقت اللہ کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں وہیں وہ اس پروردگار سے کوئی شکایت نہیں کرتے بالکل مسلسل اس کے شکر گزار ہوتے ہیں۔

یہ رویہ اسے اسلام کے نزدیک لے آیا۔ وہ مسلمان ہوا تو اس کی زندگی میں جو تبدیلی آئی وہ صرف اسی شخص کی زندگی میں آ سکتی ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ ایک صحیح مسلمان اسی وقت بنا جا سکتا ہے جب آپ ان اصطلاحات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں جو اسلام کا جداگانہ خاصہ ہیں۔ وہ کہتا تھا جب تک میں امریکی اور مغربی اصطلاحات استعمال کرتا رہوں گا میں کبھی بھی اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھال سکتا۔ اس لیے کہ اسلام کی دی گئی اصطلاحات ایک مختلف طرز زندگی اور مخصوص روحانی اور ایمانی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ وہ ہمیشہ لفظ اللہ استعمال کرتا اور امریکی انگریزی میں پروان چڑھنے کے باوجود کبھی گاڈ (God) کا لفظ استعمال نہ کرتا۔ میں اس کے گھر گیا تو اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ کوئی اہتمام نہ تھا۔ میں نے دس سالہ معصوم لڑکی سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا ’’اس میں کیا خاص بات ہے کہ میں پیدا ہوئی‘‘۔ میں نے کہا تحفے ملتے ہیں۔ اس کا جواب تھا میرے ماں باپ اکثر مجھے تحفے دیتے ہیں‘ میرے مانگنے پر بھی اور میری کسی کامیابی پر بھی‘ بلکہ اکثر مجھ سے محبت کے اظہار کے لیے بھی‘ تو پھر کسی ایک دن تک مصنوعی خوشی کو محدود کرنے میں کیا فائدہ۔
دس سالہ بچی کے منہ سے یہ جواب صرف اس کے والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا جنہوں نے اسے اسلامی اصطلاحات کے معانی و مفاہیم کے تناظر میں پالا تھا۔ ڈیوڈ جس نے اپنا اسلامی نام دائود  رکھا تھا اور جس نے مجھے اس سمت سوچنے کا راستہ دکھایا کہ روز مرہ زندگی میں اصطلاحات استعمال کرنے سے طرز زندگی میں کتنا فرق آ جاتا ہے اور اسلام تو ہے ہی ایک جداگانہ طرز زندگی کا نام‘ جسے اقبال نے کس خوبصورتی سے بیان کیا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اصطلاحات روز مرہ زندگی میں استعمال کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی بھی لسانیات کا ماہر اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ انسان اپنی زندگی میں جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ اس کی شخصیت اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں کسی لڑکے یا لڑکی کو کتنی آسانی سے ’’آئی لو یو‘‘ کہہ دیتے ہیں لیکن اگر آپ کو کسی سے ’’میں تم سے عشق یا محبت کرتا ہوں یا کرتی ہوں‘‘ کہنا پڑ جائے تو آپ سو بار سوچیں گے کہ یہ کتنا عامیانہ لفظ ہے‘ کیا مجھے ایسا کہنا زیب بھی دیتا ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے آپ کے معاشرے کے وہ رویے ہوتے ہیں جو آپ کو مدتوں شرم و حیا اور دوسری صنف سے گفتگو کے آداب سکھاتے ہیں۔ یہ تو معاشرت کی بات ہے۔ اب ذرا اسلام کے معیارات اور اصطلاحات کے استعمال سے زندگی پر پڑنے والے اثرات دیکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیبی اثرات کی وجہ سے ایسے بہت سے فقرے عام ہو گئے ہیں جو ہم بغیر کسی جھجھک کے آسانی کے ساتھ بول جاتے ہیں۔ مثلاً We are too close, we are physical, I have an affair یہ تمام انگریزی جملے ہم جسمانی تعلق کے ڈھکے چھپے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنی طرز پر ادائیگی سے اگلے تک مطلب بھی پہنچا دیتے ہیں لیکن اگر ہمیں اپنے اس تعلق کے لیے لفظ زنا استعمال کرنا پڑ جائے تو اس کے ساتھ جو تصور گناہ وابستہ ہے وہ ہمیں شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔
اسی طرح ہم کسی ایسے شخص کو عیاش کہہ لیتے ہیں‘ یہ تک کہہ لیتے کہ وہ فلرٹ ہے‘ کوئی زیادہ انگریزی دان ہو تو Debosh کہہ دے گا لیکن اس کے جرم کی نوعیت دیکھتے ہوئے اسے زانی کہہ کر نہیں پکارتے ہیں حالانکہ وہ اسی فعل کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہم اس احساس گناہ سے بچنا چاہتے ہیں جو اسلام ہمارے ذہن میں صرف ایک اصطلاح کے استعمال سے ڈالتا ہے اسی طرح کرپشن‘ کک بیک اور بددیانتی جیسے لفظ ہم روز استعمال کرتے ہیں۔ ہم ایسے پٹواری‘ تھانیدار‘ انجینئر یا اعلیٰ ترین افسر کو بددیانت اور کرپٹ تو کہہ دیتے ہیں لیکن اسے راشی نہیں کہتے کہ ہمارے ذہنوں میں سید الانبیاء کی وہ حدیث گونجنے لگتی ہے کہ ’’رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔
دنیا کا ہر بینکار یہ بخوبی جانتا ہے اور اس کا ادراک رکھتا ہے کہ وہ جو بھی زائد رقم اپنے کھاتے داروں کو دے رہا ہے وہ سود ہے لیکن وہ اسے منافع کہہ کر لوگوں کو قائل کرتا ہے اور لوگ بھی وصول کرتے ہیں لیکن اگر وہ لفظ سود یا رباء استعمال کرے تو اسے اندازہ ہو جائے کہ لوگ کیسے اس کاروبار سے منہ پھیرتے ہیں۔ لفظ سود کا اصل ترجمہ انگریزی میں USURY ہے۔ یہ سود کا نظام اس قدر مکار ہے کہ اسے علم ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب اسے جائز تصورنہیں کرتا اس لیے اس سود کو ایک نیا نام دیا گیا جسے interest کہتے ہیں۔
پاکستان کے آئین میں انسانی اخلاق اور صاف و شفاف کردار کو ثابت کرنے کے لیے صرف دو اسلامی اصطلاحات ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ استعمال ہوئی ہیں جس پر آج تک بحث چلتی ہے۔ کوئی سیاست دان انھیں ماننے کو تیار نہیں۔ کتنے بڑے بڑے دانشور اور تجزیہ نگار اپنے تعصب اور نفرت کا اظہار ان الفاظ سے کرتے ہیں۔ کیا کسی حکمران‘ ممبر اسمبلی یا سینیٹر کو سچا اور امانت دار نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کوئی بھی لفظ بول لیں‘ راست گو کہہ لیں Truthful کہہ لیں‘ Trustee کہہ لیں وہ ماننے کو تیار ہیں لیکن جیسے ہی لفظ ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ استعمال ہوتا ہے تو چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان دونوں الفاظ سے وہ معیارات ذہن میں آتے ہیں جو قرآن اور حدیث طے کرتی ہے۔
آئین میں یہ صرف دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں تو وہ پورا تہذیبی نظام خوفزدہ ہے جو اپنی بددیانتی‘ جھوٹ‘ مکر و فریب‘ ریا کاری‘ خیانت‘ کرپشن‘ رشوت خوری اور اقربا پروری جیسے جرائم کو اصطلاحات کی آڑ میں چھپا کر ایک طرز زندگی مہیا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے جج کو قاضی نہیں کہتے کہ پھر ہمیں معیار مدینہ سے لانا پڑے گا‘ ہم اپنے حکمران کو امیر یا خلیفہ نہیں کہتے کہ پھر لوگ ان سے ویسا ہی طرز عمل طلب کریں گے جو ان عہدوں پر سید الانبیاء کے صحابہ نے اختیار کیا تھا۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے آئین کی ایک کتاب تحریر کی جاتی ہے تا کہ لوگ انھی اصطلاحات میں سوچنا اور زندگی گزارنا شروع کریں۔
دنیا کا کوئی آئین ایسا نہیں جس کی ہزاروں مختلف توجیہات نہ ہوں۔ ہر کسی کی اپنی توجیہہ ہوتی ہے لیکن وہ نافذ ہوتا ہے۔ بس ایک ادارے کو اس کی توجیہہ کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے جیسے سپریم کورٹ لیکن آپ کہیں کہ قرآن کو آئین بنا دو تو آواز اٹھتی ہے کونسی توجیہہ نافذ کریں۔ کتنا آسان ہے کہ ایک ادارہ بنا دو جسے توجیہہ کا اختیار دے دو لیکن یہ کوئی نہیں کرے گا۔ وہ تمہیں اپنی اصطلاحات میں قید رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی اسلام کی اصطلاحات کا استعمال کرنے لگے تو اسے دقیانوس‘ فرسودہ‘ غیر ترقی یافتہ اور دیگر القاب سے نوازا جاتا ہے۔ اصل خوف یہ ہے کہ اگر اصطلاحات استعمال ہونا شروع ہو گئیں تو معیار زندہ ہو جائیں گے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی