یورپ‘ عالمی جرائم اور دہشت گردوں کی جنت از اوریا مقبول جان

یورپ‘ عالمی جرائم اور دہشت گردوں کی جنت از اوریا مقبول جان

پندرہ سال کے کشت و خون اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر کس قدر ڈھیلے منہ سے ٹونی بلیئر نے کہا کہ عراق میں فوج داخل کرنے پر میں معافی مانگتا ہوں۔ ہمیں غلط اطلاعات دی گئی تھیں۔

 

یہی کیفیت امریکی انتظامیہ کی ہے جس کا ہر بڑا کہتا پھرتا ہے کہ دنیا صدام حسین کے زمانے میں کس قدر پرامن تھی۔ اسامہ بن لادن کا کس قدر ہاتھ گیارہ ستمبر کے واقعات میں تھا‘ اس کے شواہد آج تک دنیا کے سامنے تو ایک طرف خود امریکی انتظامیہ اور امریکی نظام انصاف کے سامنے بھی پیش نہ ہو سکے لیکن اس کے باوجود افغانستان جیسے بے یار و مدد گار اور بے سروسامان ملک پر آگ اور خون کا عذاب مسلط کر دیا گیا۔ جس وقت گیارہ ستمبر ہوا تھا تو پوری دنیا کے میڈیا پر گفتگو کرنے والے عالی دماغ تجزیہ نگار اور دانشور اور اخباروں میں حالات و واقعات کا جائزہ لینے والے صحافی صرف ایک جانب انگلیاں اٹھاتے تھے اور وہ افغانستان تھا۔

کہتے تھے کہ یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں۔ اس ملک کو تہس نہس کر دو۔ حالانکہ گیارہ ستمبر میں شریک لوگوں میں سے کسی ایک کا تعلق بھی افغانستان سے نہیں تھا۔ آج پندرہ سال بعد بھی نہ تجزیہ نگاروں کے تجربے میں فرق آیا ہے اور نہ ہی تبصرہ نگاروں کے تبصرے میں۔ مغرب کے حکمرانوں کی منطق بھی وہی ہے کہ یہ سب تو شام اور عراق میں جنم لینے والی دولت اسلامیہ کی وجہ سے ہے اور اگر اسے تباہ و برباد کر دیا جائے تو یورپ اور امریکا امن و سکون کی دوبارہ زندگی بسر کرنا شروع کر دیں گے اور ان کے سروں سے خوف کے سائے ہٹ جائیں گے۔ کیا حیران کن منطق ہے۔

ایک جانب ٹونی بلیئر‘ امریکی اعلیٰ حکام یہ اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ رہے ہیں کہ اگر ہم عراق پر حملہ نہ کرتے تو آج داعش وجود میں نہ آتی۔ دنیا جہاں کے مبصرین عرصہ عرب بہار سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب لیبیا‘ مراکش‘ تیونس‘ یمن اور شام میں سکون تھا۔ باقی ممالک تو پھر سنبھل گئے لیکن جہاں عالمی طاقتیں حملہ آور ہوئیں وہ ملک ایک زرخیز زمین بن گئے جہاں یہ افراد بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے میدان جنگ میں کود گئے۔ اس کی مثال عراق‘ شام‘ لیبیا اور افغانستان ہیں۔

لیکن اس ساری ’’دہشت گردی‘‘ کا تارپود تو پورے یورپ میں پھیلا ہوا ہے۔ جب یورپ کے 23 ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ داعش کے ساتھ لڑنے جا رہے تھے تو وہ اس تصور سے بخوبی آشنا تھے کہ انھوں نے وہاں امریکا اور یورپ کی اتحادی بلکہ ٹوڈی عراق اور شام کی حکومتوں سے لڑنا ہے۔ یہ سب کے سب یورپی یونین ممالک اور برطانیہ کے شہری تھے۔ یورپ میں کونسا مدرسہ تھا جو انھیں جہاد کا درس دیتا تھا۔ کیا وہاں بھی کوئی شمالی وزیرستان تھا جہاں ان کے ٹریننگ کیمپ کھلے ہوئے تھے۔ کیا یورپ کے ممالک میں کالعدم تنظیمیں تھیں جو ان لوگوں کو منظم کرتی تھیں۔

یہ سب تو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے نوجوان تھے جنھیں سیکولر نظام تعلیم نے مذہب سے نفرت کی لوریاں سنائیں تھیں۔ یہ سب ایسے یورپ کے ممالک میں نکل کر عراق اور شام کی جانب گئے جیسے وہ دولت اسلامیہ کے قیام کا مدتوں سے انتظار کر رہے تھے۔ آج یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ یہ وہاں سے جہادی جذبے کے ساتھ دہشت گردی کی تربیت لے کر آئے ہیں لیکن فرانس میں پیرس کے حملے سے پہلے کہا جاتا تھا کہ یورپ سے گئے ہوئے مجاہدین داعش کو ساری ٹیکنالوجی سکھا رہے ہیں اور داعش کا طرز حکومت اور لڑائی کا اندازہ ان یورپی مجاہدین کی وجہ سے انتہائی بہتر طور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس پر فتح حاصل کرنا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔

پیرس حملے نے ایک ایسی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ جس کے تصور سے ہی یورپ کے تمام ممالک کانپ رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یورپ کے جہادی گروہوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک وجود میں آ چکا ہے اور اسے کسی بھی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ موجودہ پیرس حملہ بیلجیئم کے اندر موجود وہاں کے شہریوں کے ایک نیٹ ورک نے کیا اور اس کی تمام منصوبہ بندی فرانس کے شہریوں کی مدد سے ہوئی۔ بیلجیئم کی حکومت کے مطابق اس وقت 494 بیلجیئم کے شہریوں کا ایک گروہ ہے جو دہشت گردی کے لیے منظم ہے۔ ان میں سے 272 داعش کے ساتھ لڑنے گئے ہیں۔

134 واپس آ چکے ہیں۔ 75 کے بارے میں خبر ہے کہ وہ وہاں لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے جب کہ  13 نوجوان ایسے ہیں جو بیلجیئم سے شام کے لیے روانہ ہوئے لیکن وہاں پہنچے نہیں۔ پیرس کی پولیس موقع واردات پر موجود ایک گاڑی میں پائی جانے والی ٹریفک چالان کی رسید سے صرف پتہ کرنے کے لیے بیلجیئم پہنچی کیونکہ یہ چالان وہاں سے کٹا ہوا تھا‘ تو حیران رہ گئی۔ ان کے لیے یہ کس قدر حیران کن تھا کہ وہاں میڈ ان یورپ خود کش جیکٹوں سے لے کر بلقان کی ریاستوں سے صرف تین سو یورو میں کلاشنکوف مل جاتی ہے اور یہ تمام کے تمام یورپی جہادی اسلحہ چلانے اور فن سپہ گری اور گوریلا جنگ کے ماہر ہیں۔ انھیں یہ سب کسی مدرسہ نے نہیں سکھایا بلکہ انھوں نے انٹرنیٹ اور دیگر کتب سے خود یہ معلومات حاصل کیں۔

یہ سب کے سب ایک شخص خلیفہ ابراہیم کی ٹیم ہیں جس کے بارے میں ابھی تک صرف اتنی اطلاعات میسر ہیں کہ وہ یورپ کے کسی ملک کا پیدائشی شہری ہے۔ فرانس کا ادارہ Brigade of Resarch & investigation (BRI) ان تمام یورپی جہادیوں کے سوشل نیٹ ورک تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عبدالماجد الصبور اور ابو عمر المالکی جیسے چہرے ان کو نظر آتے ہیں جو ان کے یورپی کلچر میں پلے بڑھے ہیں۔ انھی کی زبان اور انھی کا محاورہ بولتے ہیں اور مسکراتے ہوئے مختلف سوشل میڈیا پر انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں، یہ کون ہیں، کہاں ہیں کیا کر رہے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں، ان سوالوں کا جواب ابھی تک یورپ کے کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔

لیکن وہ سب ان لوگوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ اس معاشرے میں اجنبی نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ وہ واقف ہیں کہ کہاں کیسے اور کس طرح حملہ کیا جاتا ہے، پولیس سے چھپا جاتا ہے اور کیسے ایک عام شہری کی طرح ہجوم میں گم ہوا جا سکتا ہے۔ تفتیش والے حیران ہیں کہ تمام گواہان کہتے ہیں کہ حملہ آور ایک مرسیڈیز کار میں سوار آئے اور مرسیڈیز کار کسی کیمرے میں نظر نہیں آ رہی۔ یعنی ان لوگوں کو کیمروں کے مقام کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا۔ فرانس کے حکام کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اس نیٹ ورک میں پانچ کے قریب نوجوان ہیں جو کسی بھی جگہ اور کبھی بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن تمام یورپی ممالک کو ملایا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ نہ یہ طالبان کی طرح پگڑیاں پہنے ہوئے ہیں اور نہ ہی داش کی طرح راکٹ لانچر کندھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ سب تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

یورپی لباس پہنتے ہیں، ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں، وہی زبان اور محاورہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مسلمان ملکوں سے ہجرت کر کے آنے والے بھی ہیں اور یورپ کے نو مسلم بھی۔ یہ سب سوچ سمجھ کر اس جانب آئے ہیں۔ وہ انتقام ہو یا کوئی اور جذبہ لیکن یہ سب یورپ کے ممالک کے حکمرانوں اور عوام سے ان کے مظالم کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں۔ صرف پیرس واقعہ کو لے لیں، جہاں یہ بیلجیئم میں بنائے جانے والے منصوبے سے پردہ اٹھاتا ہے وہاں یہ بھی راز کھلتا ہے کہ وہ تین بھائی جو اس سارے حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے وہ الجزائر سے خاندانی تعلق رکھتے تھے۔ میں الجزائر کی کئی سو سال پرانی تاریخ میں نہیں جاتا، جب فرانس نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ صرف چند دہائیاں پہلے 1991ء میں جب الجزائر کے الیکشن کے دو مرحلوں پر اسلامک فرنٹ کو اکثریت حاصل ہو گئی تھی تو یقین تھا کہ تیسرے مرحلے میں جمہوری طور پر ایک اسلامی حکومت بن جائے گی۔

فرانسیسی افواج الجزائر میں داخل ہوئیں۔ جنگی جہازوں نے بمباری شروع کی اور لاکھوں انسانوں کا مقتل  اس ملک کو بنا دیا گیا۔ دنیا کو نہ جمہوری طور پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت چاہیے اور نہ ہی اسلحے کے زور پر قائم ہونے والی دولت اسلامیہ تو پھر کیا چاہیے جو چاہیے وہ تو شاید نہ ملے لیکن اب یورپ کا مقدر اپنے ہی گھر میں لڑنا ہے۔ اب ملک تباہ کر کے معافی مانگنے کے زمانے گزر گئے۔ اب اپنے گھروں میں لگی آگ کو بجھاؤ، یورپ میں موجود نیٹ ورک سے نبرد آزما ہو جاؤ پھر دنیا کو طعنہ دینا کہ کہاں دہشت گردوں کی جنت ہے۔ پہلے اپنے ہاں کی دہشت گردوں کی جنت کا مزہ تو چکھ لو۔

بحوالہ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی