خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش کیسے کامیاب ہوئی ،اسلامی تاریخ کے المناک رازوں سے پردہ اٹھتا ہے


خلافت عثمانیہ کے خلاف سازش کیسے کامیاب ہوئی ،اسلامی تاریخ کے المناک رازوں سے پردہ اٹھتا ہے



خلافتِ عثمانیہ (خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعد) اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت تھی۔ اس میں تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ء تک 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ پہلے 8 حکمران سلطان تھے۔ خلیفۃ المسلمین نہ تھے۔ انہیں اسلامی سلطنت کی سربراہی کا اعزاز تو حاصل تھا، خلافت کا روحانی منصب حاصل نہ تھا۔ 9 ویں حکمران سلطان سلیم اوّل سے لے کر 36 ویں حکمران سلطان وحید الدین محمد سادس تک 30 حضرات سلطان بھی تھے اور خلیفہ بھی، کیونکہ خلافتِ عباسیہ کے آخری حکمران نے سلطان سلیم کو منصب و اعزاز خلافت کی سپردگی کے ساتھ وہ تبرکاتِ نبویہ بھی بطور سند و یادگار دے دیے تھے جو کہ خلفائے بنو عباس کے پاس نسل در نسل محفوظ چلے آرہے تھے۔ یکم نومبر 1922ء کو چونکہ مصطفی کمال پاشا نے مغربی طاقتوں اور ’’برادری‘‘ کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کرکے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کی اٹلی کی طرف ملک بدری کے احکامات جاری کردیے تھے، اس لیے اس نامبارک دن سلطنت ختم ہوگئی، البتہ خلافت اب بھی باقی تھی۔ سلطان وحید الدین ششم کی جلا وطنی کے بعد ان کے پہلے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری عثمانی خلیفہ بنایا گیا، مگر 3 مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھراسلام دشمنی اور مغرب پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کرلیا۔
اس طرح آخری خلیفہ جو سلطان نہ تھے، خلیفہ عبدالمجید دوم کی اپنے محل سے رخصتی اور پہلے سوئٹزرلینڈ پھر فرانس جلاوطنی کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا المناک سانحہ بھی پیش آگیا۔


محقق مؤرخین اور محقق معاصرین کے مطابق ان 37 حکمرانوں میں سے آخری تین محض برائے نام حکمران تھے۔ اصل طاقت ان خفیہ قوتوں کے ہاتھ میں تھی جو سلطنت اور خلافت کے خاتمے کے درپے تھے جنہوں نے جمہوریت کے سحر میں دنیا کو گرفتار کرنا تھا۔ وہ اچھے وقت کے انتظار میں ان کو برائے نام سامنے رکھ کر باگیں اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے تاکہ ان پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اور زوال کی تمام وجوہات خود عثمانی حکمرانوں کی طرف منسوب ہوں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط کے اسباب اور اتاترک جیسے دین دشمنوں کے برسرِاقتدار آنے کے عوامل پر مختلف حضرات نے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ ہم کہانی کو ذرا پیچھے جا کر 30 ویں عثمانی حکمران سلطان محمود دوم سے شروع کریں گے، کیونکہ زوال کا ظہور اگرچہ آخری تین حکمرانوں سے ہوا تھا، مگر اس کی بنیاد اسی حکمران کے والد سلطان مصطفی چہارم کے حرم میں ایک خاتون کے آنے سے ہوا تھا۔ اس داستان کے دوران وہ اسباب خود بخود سامنے آتے جائیں گے جو اس المناک سانحے کا اسباب کی دنیا میں ظاہری سبب ہے اور امت کو سائبان خلافت سے محروم کرگئے۔ آخر میں ہم ان اسباب کی واضح تعیین اور ان کے خوفناک نتائج کی صاف نشاندہی بھی کریں گے۔ مقصد اس داستان اور اس کے نتائج کا یہ ہے کہ اس طرح کے اسباب پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں کھلے ڈلے پائے جاتے ہیں۔
کہانی بحرظلمات کے پار واقع ایک گمنام جزیرے سے شروع ہوتی ہے۔ 1492ء میں امریکا کی دریافت کا تمغہ سجانے کے بعد 1502ء میں کرسٹوفر کولمبس نے ویسٹ انڈیز کے مشرق میں ایک جزیرہ دریافت کیا۔ ’’بحر ظلمات‘‘ کے پار ’’برّطلسمات‘‘ کی تلاش میں سرگرداں یورپی کے درمیان ان نو دریافت جزائر پر قبضے کے لیے رسہ کشی جاری تھی۔ 1635ء میں اس جزیرے کو فرانسیسی حکومت نے آباد کیا، لیکن برطانوی بھی حسب روایت وہاں پہنچ گئے۔ پھر کئی برسوں تک فرانس اور برطانیہ کے درمیان آویزش کے بعد اسے فرانس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ یہ چھوٹا سا جزیرہ’’ مارٹینیق‘‘ کہلاتا ہے۔ 18 ویں صدی کے وسط میں یہ جزیرہ کولمبس کے ساتھ آنے والی ’’برادری‘‘ کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہاں وہ کیا کررہے تھے؟ ایسی دوشیزاؤں کی تربیت کررہے تھے جن سے حسب منشا کام لے سکیں۔ ’’مارٹینیق‘‘ میں 2 لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کی فتنہ خیز کارروائیوں نے دنیا بدل کر کر رکھ دی۔ بنی نوع انسان کے لیے ایک امتحان بن گئیں۔ ان 2 کو دو الگ الگ اہداف کی طرف بھیجنے کے لیے تیار کیا گیا۔ ایک کا ہدف مشکل تھا، دوسری کا آسان۔
سلاطین آل عثمان کا دور زوال میں قرض لے کر تعمیر کردہ شاہی محل دولما باشی اس طرہ کے مسرفانہ اخراجات بالآخر اس عظیم اسلامی سقوط کا سبب ہیں
ان میں سے ایک جوزفین تھی۔ یہ 1763ء میں پیدا ہوئی۔ شاہِ فرانس نپولین بوناپارٹ کی بیوی بنی۔ جوزفین کا ہدف زیادہ دُشوار نہیں تھا۔ اسے صرف فرانس پہنچنا تھا۔ پھر نپولین تک رسائی مغربی اقدار کی وجہ سے آسان تھی، البتہ اس کی کزن ’’میری مارتھا‘‘ کا کام ذرا مشکل تھا۔ اسے ترک سلطان کے حرم میں پہنچنا اور مشکوک ہوئے بغیر رہنا تھا۔ یہ کام کافی مشکل تھا۔ نہ حرم تک آسانی سے پہنچا جاسکتا تھا اور نہ اندر پہنچنے کے بعد مطلوب ہدف تک رسائی آسان تھی۔ حرم کے اردگرد چار پانچ میل تک حفاظتی اقدامات کیے جاتے تھے۔ اور یہاں متعین تندخو پہرے دار جنہیں ’’بوستانجی‘‘ (اسپیشل گارڈ) کہا جاتا تھا، سخت قسم کا پہرہ دیتے تھے۔ اس طرح غیرلوگوں کے حرم تک براہِ راست رابطے کے امکانات ختم ہوجاتے تھے، البتہ ایک صورت ایسی تھی جو محفوظ بھی تھی اور یقینی بھی۔ یہ صورت کیا تھی؟ جو لوگ حرم کے اندر نقب لگانا چاہتے تھے، ان کا بھیجا ہوا ایک جاسوس لکھتا ہے:
’’یونانی اور فرانسیسی خواتین بعض اوقات حرم میں بیگمات سے ملنے جاتی ہیں۔ ان کے شوہر سوداگروں اور ترجمانوں کے روپ میں قلیوں کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ یہ خواتین یورپ کے نوادرات دکھانے اور فروخت کرنے کے بہانے حرم میں داخل ہوتی ہیں۔ حرم کے بارے میں درست معلومات ایسے مواقع پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔کچھ اسی طرح میں بھی یہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔‘‘ (فری میسنری اور دجال از کامران رعد) الغرض! خاطر خواہ معلومات حاصل کرنے کے بعد 1784ء کے قریب ایک خوبصورت 14 سالہ دوشیزہ استنبول میں لائی گئی۔ مختلف نسلوں کے ملاپ نے اسے طلسماتی حسن اور کرشماتی ذہانت کا پیکر بنا دیا تھا۔ اس کے خیرہ کن حسن نے کسی کو بولی دینے کی جرأت نہ کرنے دی۔ فروخت کنندہ ہر ایک کو بتاتا یہ لڑکی نئی سرزمین (امریکا) میں آباد ہونے والے ابتدائی فرانسیسی یا ہسپانوی مہم جوؤں کی اولاد میں سے ہے۔ اسے قزاقوں نے اغواکر لیا تھا۔ بعد ازاں ان سے بازیاب کرالیا گیا۔ اس نے کبھی نہ بتایا اسے قزاقوں سے کس نے بازیاب کرایا؟ یہ لڑکی سلطان عبدالحمید اول از 1774ء تا 1789 تک کے دور میں بازار لائی گئی۔ آخرکار اس کے غیرمعمولی فتنہ خیز حسن کی شہرت شاہی محل تک پہنچ گئی۔ فروخت کنندہ نے کسی اور کی بولی کو کامیاب ہونے دینا تھا نہ سلطان کے حرم کے علاوہ کسی اور تک اسے جانے دینا تھا۔ اس 14 سالہ لڑکی کو حرم میں’’نقشِ دل‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ نام پوری سلطنت عثمانیہ میں مشہور ہوا۔ جب’’ نقشِ دل‘‘ حرم میں داخل ہوگئی تو ’’بڑا کھیل‘‘ شروع کردیا گیا، لیکن مسئلہ یہ تھا حرم کے اندر سے جوابی معلومات حاصل کیسے کی جائیں؟ نقشِ دل کیا کررہی ہے؟ اس نے مزید کیاکرنا ہے؟ معلومات کی برآمدگی اور ہدایات کی درآمدگی ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ مذکورہ بالا صورتحال میں یہ ناممکن تھا، لیکن ’’برادری‘‘ ہماری طرح جلد باز نہیں، لہٰذا ناممکن کے لفظ سے آشنا نہیں۔ جلدباز شخص ہی ممکن اور ناممکن کی تفریق میں پڑا رہتا ہے۔ تحمل مزاجی اور استقامت ایسی چیز ہے کہ ناممکن کے لفظ کو لغت سے خارج کردیتی ہے۔ باورچیوں، خانساماؤں، خصوصی محافظوں اور خادموں کی شکل میں ماہر اور تجربہ کار افراد کی حرم سلطانی میں بھرتی کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ رابطہ کاری اورپیغام رسانی کی ایک زنجیر تیار ہوگئی۔ انہیں سات آٹھ سال لگ گئے، لیکن انہوں نے تحمل کے ساتھ انتظار کیا۔
جب سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو مغـرب نے تبصرہ کیا’’بڑا کھیل ختم ہوگیا‘‘۔ یہ ایک حیرت انگیز جملہ تھا۔ کیا یہ ایک طنزیہ تبصرہ تھا یا پھر واقعی کوئی بڑا کھیل کھیلا جارہا تھا؟ اس لڑکی نے بہت جلد ترکی زبان سیکھ لی۔ شایدوہ پہلے سے جانتی تھی۔ اپنی مخصوص تربیت کی بنا پر اس نے سلطان کے دل میں اترنے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔ 20 اگست 1785ء کو اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ اس کانام ’’محمود‘‘ رکھا گیا۔ بعد ازاں وہ محمود ثانی دوم کے نام سے 30 واں سلطان (1808ء تا1839ئ) بنا۔ ’’نقشِ دل‘‘ کے بطن سے جنم لینے والے اس بچے کو اس کے بہت سارے بھائیوں اور چچازادوں کی موجودگی میں تخت تک پہنچایا گیا۔ یہ محلّاتی سازشوں سے پُر ایک طویل داستان ہے جس کا آغاز سلطان سلیم سوم کو تخت سے اتارنے سے ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے ’’ینی چری‘‘ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں ہوسکتا تھا، چنانچہ نقش دل نے ان کو ہاتھ میں لینا شروع کیا۔
ینی چری سلطنت عثمانیہ کا ایک خصوصی لشکر تھے۔ انہیں سلطان کے محافظوں کی حیثیت سے بھرتی کیا جاتا تھا۔ ینی چری بنیادی طور پر یتیم بچے تھے جن کی پرورش اور تعلیم وتربیت کسی مذہبی امتیاز کے بغیر سلطان کی سرپرستی میں کی جاتی تھی۔ انہیں بلوغت کے بعد مذہب کی حیثیت سے اسلام کی تعلیمات دی جاتی تھیں۔ پھر نہایت اعلیٰ عسکری تربیت دینے کے بعد سلطان کے محافظ دستہ میں شامل کردیا جاتا تھا۔ یہ محافظ براہِ راست سلطان کے ماتحت اور صرف اس کو جواب دہ تھے۔ سلطان سے ان کی وفاداری اور ناقابلِ یقین بہادری نے انہیں عزت و وقار کی علامت بنا دیا تھا۔ اس بات نے نہ صرف انہیں فوج میں اعلیٰ مقام دلا دیا، بلکہ ان کی اطاعت اور اثر و رسوخ میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا یہ لوگ بذاتِ خود ہر سلطان کے لیے خطرہ بن گئے اور وہ پھر بادشاہ گر بن گئے۔ یہاں پہنچ کر قارئین خود سمجھ گئے ہوں گے کہ جس طرح محل کے اندر نقشِ دل کو پہنچایا گیاتھا۔ اسی طرح ینی چریوں میں کسی ’’وفادار‘‘ کو داخل کرنا ہی وہ منصوبہ ہوسکتا تھا جو دوطرفہ رابطوں کے لیے قابلِ عمل تھا۔
سلطان سلیم سوم اس امر کا ادراک کرچکا تھا کہ بادشاہ گر قوتیں حرکت میں ہیں۔ وہ ینی چریوں کی قوت کو تشویش کی نظر سے دیکھتا تھا اور ان کے تسلط سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک نئی پیادہ فوج بنائی۔ اسے Nizami Cedits یا ’’نیو آرڈر‘‘ کہا گیا۔ اس کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ ’’نقشِ دل‘‘ جو پس پردہ بیٹھی طاقت کا کھیل کھلوارہی تھی، کا داؤ چل گیا۔ اس نے ینی چری کے ایک سردار سے پینگیں بڑھا کر ینی چریوں کو حسب منشا استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ نقشِ دل (بظاہر) ایک ینی چری علی آفندی سے ملی جو البانیہ کے گھوڑوں کے سودا گر کا بیٹا، اور وینیشیئن عیسائی تھا۔ علی آفندی کرفو کارہنے والا تھا۔ اس کے ذریعے آہستہ آہستہ نقشِ دل نے ینی چریوں کو حسب منشا استعمال کرنے کا راستہ پیدا کرلیا۔ ینی چری بادشاہ گر تھے اور برادری اپنے لوگوں کو اس بات کی خصوصی تربیت دیتی تھی کہ وہ بادشاہوں کو نہیں بادشاہ گروں کوقابو کریں۔ نقشِ دل نے ہر حال میں اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانا اور آخر کار سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنا تھا، کیونکہ وہ اسے اپنا نہیں ترک سلاطین کا بیٹا سمجھتی تھی۔ وہی سلاطین جن کے حرم میں اسے خصوصی اہداف کے تحت داخل کیا گیا تھا۔ پھر بھی انہوں نے اس سے اچھا سلوک کیا تھا۔ سلطان سلیم معزول کردیا گیا۔ اسے 28 مئی 1807ء کو تخت سے اتار کر قید کرلیا گیا۔ یہ کام ینی چریوں (Janissaries) نے کیاجو طاقتور عثمانی رجمنٹ تھے۔ (دوسری اور آخری قسط)
سلطان محمود دوم کو 28 جولائی 1808ء کو تخت نشین کردیا گیا۔ اب نپولین اور جوزفین کی رشتہ دار ’’مارتھا‘‘ یعنی نقشِ دل، والدہ سلطان کے مرتبہ پر فائزاور ان کا دور کا بھانجا اسلامی دنیا کا طاقتور ترین حکمران تھا۔ بڑا کھیل اپنے پہلے نصف کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ’’مارتھا‘‘ اگلے 29 برس تک زندہ رہی۔ و ہ مسلمانوں کے بادشاہ کی انتہائی با اثر فرانسیسی ماں تھی۔ اس نے کھیل کے لیے تیزی سے میدان سجانا شروع کیا۔ محمود دوم نے پگڑی اور جبّہ وغیرہ پہننا چھوڑ دیا۔ یورپی لباس اپنا لیا۔ آخری دو خلفائ… 36 واں اور 37 واں حکمران… جن کی تصاویر ملتی ہیں، اسی لیے یورپی لباس میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ 30 ویں نمبر کے اس حکمران سے جو نقشِ دل کا فرزند ہونے کی بنا پر یورپی نقوش کو عثمانی نقوش پر مسلط کررہا تھا۔ اس نے تمام عمائدین سلطنت اور سرکاری اہلکاروں کو اپنی تقلید کا حکم دیا تاکہ ترقی کو جلد از جلد آزادی کے ذریعے حاصل کرسکے۔ سلطنت کے عاملین کا ڈھانچہ یورپی نظام کے مطابق سول سروسز کے طرز پر قائم کیا گیا۔ بہادر عثمانی اقوام کے لیے غیرملکی ماہرین کی خدمات حاصل کر کے ان کا مزاج تبدیل کرنے کی اور بعد ازاں قابو میں کر لینے کی کوشش شروع کی گئی۔ ترکی پر مغربی تہذیب کے دروازے کھول دیے گئے۔ ذہین طلبہ کو خصوصی تعلیم کے لیے یورپ بھیجا جانے لگا۔ یورپ پلٹ طلبہ کو بڑے بڑے عہدے دیے جانے لگے۔ یہی طلبہ آگے چل کر ’’نوجوان ترک‘‘ نامی اس جماعت کی بنیاد بنے جس نے قدیم خلافت کے خاتمے اور جدت پسند جمہوریت کے نفاذ کی تحریک چلائی۔ برادری کا سفر درست سمت میں جاری تھا۔ یورپ پلٹ خصوصی تربیت یافتہ طلبہ دلکش نعروں کی آڑ میں سلطنت پر اثر انداز ہورہے تھے۔
محمود دوم یکم جولائی 1839ء کو تپ دق اور ضعفِ جگر کے عوارض میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگیا۔ ہر وقت کی شراب نوشی نے اس کی موت کو تیزی سے قریب کردیا تھا۔ اس کا جانشین اور بیٹا عبدالمجید اوّل… 1839ء تا 1861ئ… زیادہ وقت باسفورس والے محل میں گزارتا۔ اس کی ترجیح مغربی موسیقی سننا تھی۔ مغربی تعلیم اثر دکھا رہی تھی۔ شراب جسم کو اور موسیقی روح کو گھائل کررہی تھی۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس کے ذریعے مغرب یا برادری مسلمان حکمرانوں کو ڈھب پر لاتی ہے۔ نوجوان ترک طلبہ کی یورپ میں تعلیم و تربیت کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ عثمانی سلاطین کے لیے بھی غیرملکی دوروں کا اور ان میں دیے جانے والے خصوصی پروٹو کول کا جال بچھایا جائے تاکہ وہ وہاں سے رنگ اور روشنی لے کر اپنے تاریک و پسماندہ ملک کو لوٹیں۔ 600 سالہ قدیم سلطنت کے ایوانوں میں بالآخر عورت، شراب اور موسیقی نے دراڑیں ڈالنا شروع کردی تھیں۔ ’’نقشِ دل‘‘ کے جادو کا نقش سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ اب وقت آگیا تھا مسلم حکمرانوں کو یورپی زندگی کے نظاروں سے لبھا کر کھیل کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔
سلطان عبدالعزیز… 1861ء تا 1876ئ… محمود دوم کا بیٹا اور 32 واں سلطان پہلا مسلمان خلیفہ تھا جس نے 1867ء میں یورپ کا دورہ کیا۔ اس دورے میں اس کے ساتھ بیٹا ’’یوسف عزالدین‘‘ اور دو بھتیجے مراد… 33 واں سلطان… اور عبدالحمید… 34 واں سلطان… بھی تھے۔ اس دورے کی دعوت اسے لویئس نپولین نے دی۔ اس کا مقصد ’’عظیم عالمی نمائش‘‘ دیکھنا تھا۔ سلطان کا بھتیجا، مراد اپنی سنجیدگی کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اسے ممکنہ طور پر اگلا جانشین باور کیا جاتا تھا۔ وہ اتنا سنجیدہ اور متین شخص تھا کہ زندگی بھر کبھی نہ مسکرایا۔ یورپ کے دورہ کے دوران اسے شراب اور چاکلیٹ پیش کی گئی۔ اس نے خلافِ عادت مسکرا کر ملکہ فرانس کا شکریہ ادا کیا۔ وار چل چکا تھا۔ یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس کے چہرے پر دیکھنے میں آئی۔ یورپ والوں کے لیے یہ ایک مثبت اشارہ تھا۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی نوجوان شہزادہ یورپی شراب اور برانڈی کے ساتھ چاکلیٹ کا ذائقہ بھی واپس وطن لے جارہا تھا۔ یہ انتہائی خطرناک علامت تھی۔ مستقبل کا سلطان رنگین یورپی مشروبات اور ماکولات کا عادی ہونے جارہا تھا۔ اسلام دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے جارہے تھے۔ انہوں نے بالآخر ام المفاسد کے بعد اُمّ الخبائث کو بھی سلاطین کی خلوت گاہوں میں پہنچادیا تھا۔
سلطان عبدالعزیز کے بعد اس کا بھتیجا مراد پنجم اگلا سلطان بنا۔ یورپی برانڈی اور شراب کا جو ذوق وہ یورپ کے دورے سے اپنے ساتھ لایا تھا، بہت جلد ایک ضرورت بن گیا۔ اب وہ ایک عادی شرابی تھا۔ محض شرابی نہیں ذہنی مریض بھی بن گیا۔ اس کے ساتھ دو طرفہ حربے کھیلے جارہے تھے۔ ایک طرف تو فتنہ انگیز حسن کی مالک دوشیزائیں جنہیں حرم تک پہنچانے کا سلسلہ نقشِ دل قائم کرگئی تھی، کے ذریعے کاروبارِ سلطنت اور جہدو جہد سے غافل کیا جارہا تھا۔ دوسری طرف اس کے خلاف ملک بھر میں پروپیگنڈہ جاری تھا وہ ہر وقت نشے میں ڈوبا اور دوشیزاؤں کے جھرمٹ میں گھرا رہتا ہے۔ اس کے کاندھے ریاست کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل نہیں۔ ملک کو نئے حکمران، بلکہ حکمرانی کے نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سلطنت و خلافت کے سقوط کے بعد جمہوریت کے علاوہ اور کون سا نظام مغرب کی نظر میں اسلامی ممالک کے لیے بہترین ہوسکتا تھا؟
اس طرح ’’برادری‘‘ نئے سیکولر ترکی کے لیے پس منظر تیار کررہی تھی۔ ان کے پروپیگنڈا اور پمفلٹوں نے نوجوانوں کی ذہنی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔ نئے پمفلٹ قدیم اسلامی طریقوں کا استہزا اڑانے کے لیے تحریر کیے گئے۔ ان پمفلٹوں میں خاکہ دیا جاتا کہ خلیفہ وحشیانہ ڈاڑھی اور مونچھوں کے ساتھ قدیم اسلامی لباس میں ایک زنگ آلود تلوار پکڑے ہوئے ہے، جبکہ پس منظر میں ایک صاف ستھرے لباس میں ڈاڑھی منڈا، خوش وضع فرانسیسی کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں جدید رائفل ہے۔ یہ سب کچھ نوجوان نسل کا ذہن مسموم کرنے اور رائے عامہ متحرک کرنے کے لیے تھا، تاکہ عوام اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑنے مرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں جنہیں گنوار ملا کہا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ فری میسنری کے نام پر اور شیطان ازم کے نام پر کیا جارہا تھا۔ یہ کام ہمارے ہاں برصغیر میں انگریزی تہذیب کے غلبے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہی کام آج افغانستان میں ’’اسلامی امارت‘‘ کے احیا کے خطرے کے پیش نظر ’’میرا سلطان‘‘ نامی فلموں کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ طالبان کی ساکھ خراب کرنے اور ان کے بے مثل بہادری کے کارناموں پر گرد اڑانے کا کوئی موقع ہمارا ’’فنڈ خور‘‘ آزاد اور ’’غیرجانبدار میڈیا‘‘ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ سلطان مراد کے بعد خوش قسمتی سے سلطان عبدالحمید دوم 34 واں سلطان بنا۔ یہ وہ آخری شخص تھا جو برادری کے زیر اثر نہ تھا، بلکہ ان کی چالوں کو سمجھتا اور ان کے توڑ کی فکر میں رہتا تھا۔ یہ الگ بات تھی دشمن کا جال بڑے کھونٹے گاڑ چکا تھا۔ برادری نے اس کو جب ڈھب پر لانے کی کوشش کوناکام ہوتے دیکھا تو ترکیب نمبر دو شروع کی۔ اس پر قاتلانہ حملے شروع ہوگئے تاکہ اگلے فری میسن حکمران کا راستہ صاف کیا جائے۔ اس کے خلاف پروپیگنڈے کے طوفان کا یہ عالم تھا کہ یورپی وظیفہ خور قلم کار اسے مردود عبدل کہتے تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے برادری اس رکاوٹ کو اپنے راستے میں حائل دیکھ کر کس حد تک براَفروختہ ہوچکی تھی؟
سلطان عبدالحمید دوم نے قاتلانہ حملوں کے باوجود حکمرانی جاری رکھی۔ اس کے مخالفین کی قیادت برادری کا تیار کردہ پرویزی جرنیل محمود شفقت پاشا کررہا تھا۔ وہ سالونیکا میں تیسری فوج کا کمانڈر تھا۔ اس نے اپنے مقدونی سپاہیوں کے ساتھ اپریل 1909ء میں استنبول کا محاصرہ کرلیا۔ 22 اپریل 1909ء کو بہت سے منتشر ارکان ایوان اور وزرا خفیہ طور پر سان سٹیفانو میں جمع ہوئے۔ سعید پاشاکی چیئر مین شپ میں فیصلہ کیا سلطان عبدالحمید کو معزول کردیا جائے، چنانچہ اس کا اقتدار 27 اپریل 1909ء کو ختم ہوگیا۔ دو دن بعد اسے سالونیکا میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس نے اپنی بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ اس کا جرم کیا تھا؟ ’’جرمِ ضعیفی‘‘ کے بعد اس کا اصل جرم تھا اس نے برادری کے کہنے پر اسے فلسطین منہ مانگی رشوت کے عوض دینے سے انکار کردیا تھا۔ آئیے! اس کی روئیداد بھی سن لیجیے: ’’1901ء میں صہیونی تحریک کے سربراہ تھیوڈور ہرٹزل نے خلافتِ عثمانیہ کے 25 ویں خلیفہ اور عثمانی سلطنت کے 34 ویں سلطان، سلطان عبدالحمید ثانی کو پیشکش کی کہ اگر آپ سرزمین فلسطین میں یہودی آبادکاری کی اجازت دے دیں تو ہم آپ کو سونے کے 150 ملین برطانوی پونڈز دیں گے۔‘‘ سلطان نے جواب دیا: ’’اگر تم مجھے 150 ملین برطانوی پونڈز کے بجائے وہ سارا سونا بھی دے دو جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے تو بھی مجھے تمہاری پیشکش قبول نہیں، کیونکہ میں پچھلے 30 سال سے اسلامی دنیا اور اُمت محمدیہ کے مفادات کا نگہبان ہوں۔ میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاؤں گا جس سے مسلمانوں، میرے آباء و اجداد اور خلفا وسلاطین پر دھبہ لگے۔ میں یہودیوں کو سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی نہیں دینے والا، کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کی ملکیت ہے جنہوں نے اس کے دفاع کے لیے خون کی ندیاں بہائی ہیں۔‘‘
یہ جواب سن کر صہیونی زعما پھنکارتے سانپ کی طرح غصے سے بے تاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ سلطان کی طرف پھیر دیا۔ زبانیں زہر اُگلنے لگیں۔ قلم ناگ کی طرح پھنکارنے لگے۔ تمام وسائل جھونک دیے گئے۔ مہرے متحرک کردیے گئے۔ سلطان کو معزولی اور پھر جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن فلسطین بیچنے کا داغ ماتھے پر لینے سے بچ گیا۔ یہ کلنک کا ٹیکا برطانیہ کی قسمت میں لکھا تھا۔ سلطان عبدالحمید دوم کی معزولی کے بعد برادری کے رستے میں رکاوٹ نہ رہی۔ اگلی نسل اس کی تیار کردہ تھی۔ کھیل آخری لمحات کی بڑھ رہا تھا۔ ’’نقشِ دل‘‘ نقش اوّلین اب نقشِ ثانی و ثالث کی شکل میں ڈھل رہا تھا۔ سلطان عبدالحمید کے بعد کوئی بھی سلطان، کسی طاقت اور اختیار کا مالک نہیں تھا۔ سب سلطان ’’نوجوان ترک‘‘ قیادت کے اسیر تھے۔ ان کے ذریعے اتحادیوں اور اتحادیوں کے ذریعے اتاترک کے قیدی تھے۔ اتاترک عوام سے مسلسل یہ کہہ رہا تھا (اور یہ جھوٹ اور فریب تھا) کہ سلطان اتحادیوں کا قیدی ہے۔ اس کی بحالی صرف اس وقت ہوگی جب قومی وقار اور اقتدارِ اعلیٰ بحال ہوگا، لیکن یہی سلطان اس وقت آزاد ہوتا ہے جب اس کانام استعمال کرنے اور غلط طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اگلے ساڑھے 3 برس فری میسن جوڑ توڑ سے بھڑکنے والی جنگوں کی ایک بھرپور مثال تھے۔ اتاترک کو قوم کاہیرو بنایا جانا تھا تاکہ قوم سلطان کو بھول جائے۔ مسلمانوںکے سامنے ایک متبادل قیادت پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ فری مینسز نے یہ فراہم کردی۔ وہ ہمیشہ یہی کرتی ہے، لیکن ہم اسے کسی اور کی کارستانی سمجھ کے بھول جاتے ہیں۔ مثلاً: ہم نہیں جانتے دنیا میں نیویارک وہ پہلا شہر ہے جس میں گورنر ہاؤس اور فری میسن کا لاج آمنے سامنے ہیں۔ اب دوسرا شہر جس میں گورنر ہاؤس کے بالکل سامنے چار گھروں کی شکل میں فری میسن لاج موجود ہیں، ہمارے ملک میں ہے۔ بلیک واٹر کا مرکز بھی اسی شہرمیں تھا۔ وہ یہیں سے کنٹرول ہوتے تھے۔
سلطان عبدالحمید دوم کے بعد ترکی کے تخت پر تین اور سلطان بیٹھے: محمد پنجم، محمدوحیدالدین ششم اور عبدالمجید دوم، لیکن ان میں سے کوئی بھی حقیقی طور پر صاحبِ اختیار نہیں تھا۔ تمام مسلمان حسرت سے عثمانی سلطنت کی ڈوبتی ہوئی نبضیں دیکھ رہے تھے۔ سرکاری طور پر تمام اقتدار GNA (گرینڈ نیشنل اسمبلی) کے پاس تھا اور اس کے ذریعے فری میسنز کے پاس۔ اخیر الذکر دونوں میں سے پہلے یعنی سلطان محمد وحید الدین ششم کو سلطنت سے معزول کیا گیا۔ دوسرے کو خلافت سے بھی معزول کردیا گیا، لیکن وہ مرغِ بسمل کی طرح تڑپ بھی نہ سکے۔ کھیل کے آخری لمحات کی داستان انتہائی المناک اور دل کا خون کرنے والی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ ایک بات فرمائے اور وہ غلط ہو۔ صراطِ مستقیم سے معمولی سا انحراف ہمیں بالکل مختلف سمت میں لے گیا۔ ہمیں یہود و نصاریٰ سے دوستانہ تعلقات سے منع کیا گیا تھا۔ ہم نے ان کو اپنا اور اپنے بچوں کا مربی بنا لیا۔ تعلیم کے راستے یورپی تہذیب تیزی سے سرایت کرتی گئی۔ ’’نوجوان ترک‘‘ تیار ہوتے گئے۔ دلفریب ناموں نے مرکزِ خلافت کا خاتمہ کر چھوڑا۔ مغربی تعلیم، مغربی تہذیب کو اور مغربی تہذیب مغرب کے پروردہ حکمرانوں کو جنم دے رہی تھی۔ ترقی اور آزادی کے نام پر بدترین پسماندگی اور غلامی کا جال بنا جارہا تھا۔ فری میسنز نے انتظار کیا مسلسل انتظار، خاموشی اور تحمل سے۔ ان کے پاس بہت وقت تھا۔ انہوں نے صدیوں تک برداشت کیا، بالآخر انہوں نے مسلمان خلافت پر ایک عورت کے ذریعے گرفت حاصل کرلی۔ جی ہاں! نقشِ دل کے ذریعے جو میری مارتھا ایمی ڈیوبس ڈی ایوری آف مارٹینی تھی۔ اس نے وہ کام کردکھایا جو لاکھوں سپاسی اور ان گنت صلیبی جنگیں نہ کرسکیں۔ اس داستان سے ہمیں کیا پتا چلا؟
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہوا: دشمن کا پہلا وار عورت کی جانب سے ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے سابقہ حکمرانوں کی بیویاں یا سیکریٹریاں غیرملکی تھیں۔ ’’اتفاقی‘‘ طور پر ان کی زندگی میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان میں کرزئی کے بعد جن مجوزہ حکمرانوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان کی بیویاں بھی غیرملکی ہیں اور ’’حادثاتی‘‘ طور پر ان کا سنگ حاصل کر کے رفیقۂ حیات کے منصب پر فائز ہوئی ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی اہلیہ محترمہ آسٹریلین یہودی اور اشرف غنی کی زوجہ صاحبہ لبنانی عیسائی ہے۔
زناو شراب، رقص و موسیقی شیطان کے پھندے ہیں۔ اس کے ذریعے سے وہ اور اس کے چیلے انسانوں کو شکار کرکے پہلے اپنا پیرو کار پھر اپنا پجاری بناتے ہیں۔ فحاشی و عریانی پھیلانے والے رسالے، چینل، ویب سائٹس، کلب سب کے سب برادری کا وہ جال ہیں جس سے تو بہ کیے بغیر جو جتنا پھڑکے گا اتنا پھنسے گا۔
مغرب کے کچھ تعلیمی ادارے، کچھ مشرقی ممالک کے حکمرانوں اور ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی تعلیم گاہوں کے طور پر مخصوص و معروف ہیں۔ یہاں پر خصوصی محنت ہوتی ہے، چنانچہ یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان جب اپنے ملک جاتے ہیں تو ایسی کھوپڑی میں مغربی نظریات کی زنبیل ساتھ لے جاتے ہیں۔ پھر سلطنتِ عثمانیہ کی طرح اسلامی ملک کے زوال کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مغرب سے مربوط تعلیم گاہیں، تعلیمی ادارے نہیں۔ اعلیٰ مناصب تک اپنے افراد پہنچانے کی کمندیں اور مقتدر قوت حاصل کرنے کی کار گاہیں ہیں۔ طاہرالقادری اور فتح اللہ گولن جیسے لوگ بھی اس حربے کو استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’پڑھنے لکھنے کے سوا‘‘ کا نعرہ لگانے والے بھی در اصل اس تھالی کے بینگن ہیں۔
نئی نسل کو مغرب کے قائم کیے ہوئے مغربی اسکولوں میں بھیجنا ان کی شرافت، مذہبیت اور وطنیت سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ خاص کر یورپی ایڈ پروگرام کے تحت طلبہ یا اساتذہ کو اسکالر شپ پر تعلیم کے لیے بھیجنا تو مملکتِ خداداد کو ویسا ہی کھوکھلا کر دے گا، جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ ترک نوجوانوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی