جمہوریت‘ کے پسِ پردہ حامد کمال الدین



جمہوریت‘ کے پسِ پردہ!
حامد کمال الدین

ایک ذہنی اور نفسیاتی حصار جو ہماری اِس ’جمہوریت‘ کی تہہ میں کارفرما ہے، تین وجوہات سے بےانتہا اہم ہے۔
پہلی اور بڑی وجہ: نظریاتی اور ثقافتی طور پر ہمارا مغرب کا دست نگررہنا؛ تاکہ ہماری جوان نسلیں پہلی نظر میں پہچان سکیں کہ ہمارا نظریاتی قبلہ کس طرف ہے اور سماجی معاملات میں ہمیں ’ہدایت‘ کہاں سے لینی ہے۔ ہمارے نونہال یہ سمجھنے میں دیر نہ لگائیں کہ ہماری اوقات اِس عالمی اسٹیج پر ایک نقال کی ہے؛  جس کی قابلیت کی آخری حد یہ ہے کہ وہ ایک  چلتے نظام کی کامیاب نقل ہی کرکے دکھادے اور جوکہ عام طور پر اس کے بس کی بات نہیں۔ اپنے بچوں پر مغرب کی امامت کی دھاک بٹھارکھنا ہمارے تعلیمی، ابلاغی اور سیاسی سیکٹر کو سونپے گئے مشن کا نہایت اہم حصہ ہے۔


چنانچہ آج کسی قوم کا یہ کہنا کہ وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار پریقین رکھتی ہے دراصل مغرب کو بڑا بھائی ماننے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ’ہینڈز اپ‘ کا ایک مہذب انداز ہے ۔ شاید آپ نے کبھی نوٹ کیا ہو، تیسری دنیا میں کسی حکمران کا تخت ڈولتا ہو تو وہ جھوٹ یا سچ جمہوریت کی تسبیح شروع کردیتا ہے اور بسا اوقات یہ ’وظیفہ‘ سود مند ثابت ہوتا ہے! کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کو غچہ دینا اتنا ہی آسان ہے ؟ نہیں۔ یہ مغرب کی سمجھداری کی دلیل ہے کہ وہ جمہوریت کی گردان سے تیسری دنیا کے حکمران کا اصل مقصد پالیتا ہے۔ یہ حکمران اپنے ملک میں پوری جمہوریت نافذ کرتا ہے یا آدھی یا ذرہ بھر نہیں،مغرب کو بھی اس سے کیا لگے۔ یہ دراصل وفاداری بشرط استواری کا اعلان ہوتا ہے۔ تھرڈورلڈ حکمرانوں کی زبان پر ’جمہوریت‘ کالفظ تو دراصل ایک خوبصورت کنا یہ ہوتا ہے؛ اصل مقصد مغرب کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ’فدوی حاضر ہے‘۔ ہم سمجھیں نہ سمجھیں مگر کہنے والا اور جس سے کیا گیادونوں اسکا مطلب سمجھ رہے ہوتے ہیں! تیسرا کوئی فریق سمجھنا چاہے تو بھی اجازت ہے!
چنانچہ عملی ثبوت دینا  یا نہ دینا بالکل الگ مسئلہ ہے، یہاں حکمران کا ’جمہوریت جمہوریت‘ پکارنا ہی دینِ مغرب میں آنے کا فدویانہ اظہار ہوتا ہے۔ اس قولِ لسان کے بغیر آدمی ’کفر‘ کا مرتکب[1] ہوسکتا ہے!
دوسری وجہ یہ کہ: ہم تیسری دنیا کو جو جمہوریت ملی ہے اس میں ہم استحکام  stability نامی چیز سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ’ہمارے والی‘ جمہوریت افراتفری برپا رکھنے کا ایک کامیاب انتظام ہے۔ اس عدم استحکام کے بے شمار نقصانات ہمارے حق میں اور بے شمار فوائد مغرب کے حق میں خودبخود حاصل ہوتے ہیں:
١۔  داخلی استحکام نہ ہونے کے باعث بیرونی سہاروں کی ہردم ضرورت رہتی ہے۔ جس کے باعث سب کھلاڑی میدان کے بجائے پویلین پر نظر رکھتے ہیں۔ نتیجتاً؛ اس گراؤنڈ کا سب سے نکما کھلاڑ ی وہ گنا جاتا ہے جوکھیل کے اصولوں پر توجہ دے اور اپنا رخ کھیل کے میدان سے اِدھراُدھر نہ ہونے دے۔ ایساکھلاڑی چاہے جتنا مرضی اچھا کھیلے مگر اس کااسکور حیران کن حد تک ایک خاص جگہ پر جاکر رک جاتا ہے!
٢۔ دوسری بات یہ کہ اس افراتفری کے عالم میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہتا ہے۔ چورچور کے شور میں خود چور بھی آرام سے شامل ہوجاتا ہے۔ یو ں تو پچھلے سات عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے مگرپچھلی دو دہائیوں سے تو آپ نے محسوس کیا ہوگا شور ہی اب ’چورچور‘ کا ہے۔ آپ سوچیں کسی قوم کو نفسیاتی طور پر مفلوج کردینے کا اس سے اچھا گُر کیا ہوسکتا ہے۔ ہمارا معاشی استحصال بھی مغرب کے اہم اہداف میں شامل ہے۔
٣۔ تیسری بات یہ کہ افراتفری کی ایک ایسی فضا میں کوئی طویل المیعاد منصوبہ پنپ نہیں سکتا۔ تربیتی شعبے میں اور نہ سماجی عمل میں کوئی دور رس پروگرام انجام نہیں پاسکتا ہے۔ پیدآور افراد کو ایسے ماحول میں یکسوئی ملتی ہے اور نہ اداروں کو۔ کوئی بہت ہی غیر معمولی قوت ارادی کا مالک شخص یا ادارہ ہو تو شاید وہ  ایسی فضا میں کچھ کارکردگی دکھاسکے ورنہ سب جذبے اور سب منصوبے یونہی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
٤۔چوتھی بات یہ کہ اس صورتحال کی آڑ میں ہمارے وسائل بڑی خوبصورتی سے مغرب کو منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں؛ جن میں سب سے قیمتی اثاثہ ہمارا باصلاحیت نوجوان ہے، یعنی برین ڈرین۔ کسی ملک کے انسانی اور قدرتی وسائل کو پائپ لگا کر ایک ہی سانس میں کھینچ جانا مغرب کو خوب آتاہے۔ حق یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ٹیکس کلکٹری یا آئی ایم ایف کی ادائیگی اس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے بلکہ سامنے کی چیز۔ اب اس کام کےلئے یہاں ملٹی نیشنلز بیٹھی ہیں۔ این جی اوز کا ایک جال بچھا ہے۔ تعلیم و تحقیق اور ترقیاتی منصوبوں میں مدد کے روز نئے پیکج آتے ہیں۔ دیوہیکل منصوبوں پر بڑی بڑی بیرونی کمپنیاں ٹھیکے لیتی ہیں جن میں ہماری لالچ صرف اس قدر ہوتی ہے کہ ہم مزدوروں کو اس سے روزگار ملتا ہے! ایسے ایسے زبردست طریقے ہیں کہ آپ سن کرحیران رہ جاتے ہیں۔ وہ تو ہمارے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لے جائیں مگرکچھ چھوڑ دینا خود ان کے بھی مفاد میں ہے۔ بس یہی سوچ کر وہ ہم پر کچھ ترس کھا جاتے ہیں ۔ مغربی قومیں انسان دوست بھی توہیں!
چنانچہ جمہوریت کے نام پر اس اندازِ اضطراب اور اِس دھما چوکڑی کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے شور میں ہمارے چھوٹے چھوٹے چور ہی سر گرم عمل نہیں رہے جن کا ہماری زبانوں پر اب ایک عرصے سے خاصا چرچا ہے؛ بلکہ اس کی اوٹ میں جوبڑا بین الاقوامی چور پل رہا ہے وہ  شاید ہمارے خواب و خیال تک میں نہیں۔ جمہوریت کا یہ پردہ اصل میں تو اسے کام دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملکوں میں یہ جو روز اودھم مچا دیکھتے ہیں اور یہ مسلسل ہنگامی حالت جو کہیں تھمنے میں نہیں آتی... یہ دھول دراصل کچھ بڑی بڑی عالمی وارداتوں کو چھپانے کےلئے اٹھائی جاتی ہے۔ گو پس منظر ہماری اپر کلاس بھی موج کرتی ہے مگر اصل میں تو مغرب کا دھندہ چلتا ہے ۔ ہم یہاں بوجھ ڈھونے اور فارغ وقت میں تالیاں بجانے کےلئے رکھے گئے ہیں!
اللہ کی طرف آئے بغیر واللہ کوئی چارہ نہیں!!!
٥۔ پانچویں بات یہ کہ ہماری قوم کا حساس طبقہ جو اس صورتحال کے اصل پس منظر سے تو واقف نہیں مگر اتنی سمجھ بہرحال رکھتا ہے کہ کسی عمل کو اس میں پائے جانےوالی ہاؤ ہو کی بجائے اس کے نتائج سے ماپے... ہمارا یہ سنجیدہ اور حساس طبقہ مایوسی کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس طبقے کو اصلاح احوال کی کوئی صورت اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ کسی قوم کے سنجیدہ لوگ مایوسی کا شکار ہونے لگیں ، اس سے بڑا نقصان اس قوم کے حق میں کیا ہوگا۔ قوم کو اس کے جذباتی لوگوں نے تو نہیں چلانا ہوتا!
تیسری وجہ: جمہوریت کا یہ لفظ ایک اور بھی کمال دکھاتا ہے۔ کہنے کو ظاہر ہے مغر ب میں بھی جمہوریت ہے اور ہمارے ہاں بھی جمہوریت، مگر مغرب میں اسی جمہوریت سے دودھ کی نہریں بہتی ہیں اور ہمارے ہا ں خاک اڑتی ہے۔ اب ہمارا ایک عام فرد اس دردناک واقعہ کی بھلا کیا تفسیرکرے گا؟ یہی نا کہ:
’جمہوریت میں کوئی ایسی ہی خرابی ہوتی تو یہ مغربی اقوام کا بھی تو ویسا ہی حشر کرتی جو ہمارا یہاں ہورہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری قوم ہی نالائق ہے! ایسی اعلی و ارفع چیز بھی ہماری قوم کو استعمال کرنی نہیں آتی! ایساشاندار نظام جو ہمارے سامنے یورپ کو اس کے تاریک دور سے نکال لایا حتی کہ اسے چاند پر پہنچا دیا ایسے زبردست نظام کا اس قوم نے دیکھو کیا ستیا ناس کیا‘!
حقیقت یہ ہے کہ آتے جاتے،  بسوں ویگنوں میں سفر کرتے، آپ کے کان پکنے کو آتے ہیں؛ اس مضمون کی گفتگو ہر جگہ آپ کا پیچھا کرتی ہے۔ ’صاحب ہم ایک ناکام قوم ہیں‘! اف خدایا!!! ترقی بھاڑ میں گئی؛ نہ ہو ترقی؛ مگر قوم کی اس مرعوبیت کا کیا حل ہے؟ ایک قوم اگر خود اعتمادی سے اِس حد تک محروم کردی جائے او ر وہ دوسری اقوام کے آگے اس درجہ دب جائے تو وہ تو جیتے جی مر جایا کرتی ہے۔ یہاں احساسِ کمتری مسلسل ہمارا تعاقب کرتا ہے۔ ہمارے دشمن کا ہم پر یہ نہایت کاری وار ہے جس کا مقصد ہمیں ذہنی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کردینا ہے تاکہ ہم میں آگے بڑھنے کے جتنے محرکات ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب ہمارے اندر ہی دم توڑجائیں؛ تب کبھی آپ مغرب کو مات دینے کی بات کریں تو اس پر دشمن سے پہلے آپ کی اپنی ہی قوم  کا قہقہہ سنائی دے! اقوامِ عالم سے آگے گزرنے کی بات ایک قوم کے ہاں کامیڈی کا بہترین مواد قرار پائے!
حضرات آپ کے دشمن کو آپ کے یہاں کیا اس کے سوا کچھ اور بھی چاہئے؟
یہ سب کام جمہوریت کی اِس بظاہر لایعنی گردان نے دکھایا ۔ ’جمہوریت‘ تو یہ واقعتاً وہ نہیں تھی جو مغرب میں ’نازل‘ ہوئی لیکن عرفِ عام میں اس کو ’جمہوریت‘ کہنے کے فائدے شمار سے باہر ہیں۔ آپ کے خیال میں لفظی مشابہت ایک بے ضرر چیز ہے؟ کچھ لوگوں کےلئے ضرور یہ بے ضرر ہوگی البتہ قومیں اس کے تباہ کن مضمرات کی متحمل نہیں۔ خود آپ نے دیکھا، اپنی اس آپ بیتی میں اصل جان اس ’لفظی مشابہت‘ ہی نے ڈالی ہے۔ ’لفظی مشابہت‘ کا کچھ مزید تذکرہ ابھی آئندہ فصل میں آتا ہے..


[1]  یہ ’کفر‘ عالم اسلام میں صرف عرب کے کچھ راجواڑوں کو معاف ہوتا ہے، تاہم عرب راجواڑوں سے اس کا جو ’کفارہ‘ لیا جاتا ہے وہ ہمارے تصور سے باہر ہے، ’اسٹیٹ آف ازرائیل‘ کا تحفظ اسی کا ایک حصہ ہے!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی